اہل دانش عام ہیں، کم یاب ہیں اہل نظر
اہل دانش عام ہیں، کم یاب ہیں اہل نظر
(خان یاسر)
ڈاکٹر محمد رفعت صاحب اسم با مسمی تھے — بلند شخصیت، اعلیٰ اخلاق، اونچی سوچ۔ آپ کا شمار بلامبالغہ ملت اسلامیہ ہند کے اہل فکر و نظر میں تھا۔ یہ سہ حرفی ”تھے“ اور ”تھا“ لکھنے میں جو تکلیف ہورہی ہے اس کا بیان زبان اور انگلیوں کی قوت گویائی سے ماورا ہے۔ اس کی گرفت کے لیے کان اور آنکھ جیسے حواس نہیں فکرمند ذہن اور دردمند دل درکار ہے۔
آپ کی حیثیت تحریک اسلامی ہند کے لیے دماغ کے اس حصے کی سی تھی جو شناخت اور یادداشت کی حفاظت کرتا ہے اور جسم میں اعتدال و توازن برقرار رکھتا ہے۔ انھیں گاڑی کے بریک سے بھی تشبیہ دی جاسکتی ہے جس پر نادان روکنے، ٹوکنے اور رفتار کم کردینے کا الزام ضرور لگاتے ہیں مگر جس کا فیل ہوجانا بدترین حادثات کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔
موت ایک ایسی حقیقت ہے جس پر صرف مومن ہی نہیں مشرک و ملحد بھی ایمان لاتے ہیں کہ یہ آنکھوں دیکھی ہے۔ آئے دن کسی نہ کسی کے انتقال کی خبر آتی رہتی ہے۔ بے حسی کا یہ عالم ہے کچھ خبریں سماعت یا بصارت سے ٹکرا کر اچٹ جاتی ہیں۔ کچھ خبریں، ذرا آگے بڑھ کر، افسوس میں ڈالتی ہیں مگر کوئی دیرپا اثر نہیں چھوڑتیں۔ البتہ بعض خبریں قلب و نظر میں ہیجان برپا کردیتی ہیں، دل و دماغ کی چولیں ہلا ڈالتی ہیں، اوسان خطا کردیتی ہیں۔ ڈاکٹر محمد رفعت صاحب کی رحلت کی خبر اسی آخری نوعیت کی ایک خبر تھی جسے سنتے ہی منہ سے انا للّٰہ تو نکلا لیکن پورا وجود ٹھہر سا گیا، آنسوؤں کو بھی یاد نہ رہا کہ یہ مقام نکلنے کا ہے، اور پہلی دعا مغفرت کی نہیں خبر کے جھوٹی ہونے کی نکلی۔ دوچار منٹ بعد جب انھی صاحب کا دوبارہ فون آیا تو پھر امید بندھی کہ شاید طبیعت کے زیادہ ناساز ہونے پر محبت کرنے والے گھبراہٹ میں ذرا زیادہ دور کے گمانوں میں پڑگئے تھے جن کا اب ازالہ ہوا چاہتا ہے۔ اس وقت کیفیت یہ تھی کہ کوئی سارا مال و متاع لے کر کہہ دیتا کہ خبر جھوٹی ہے تو میرے لیے سستا سودا ہوتا۔ رفعت صاحب ہوتے تو اس جملے پر اپنی مسحور کن آواز میں دل فتح کرنے والی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھ سکتے تھے کہ ”جناب! اس بات سے اپنی غربت کی طرف اشارہ مقصود ہے یا میری قدر و قیمت کی طرف؟“ آہ! اب تو اس مسکراہٹ کا دیدار جنت میں ہوگا، ان شاءاللہ۔ مگر افسوس! وہ گھڑی جسے انسان اپنے اور اپنوں کے لیے بہت دور سمجھتا ہے وہ آچکی تھی۔ خبر کے غلط ہونے کی امید ختم ہوئی تو بے بسی کی ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوئی اور دل کی گہرائیوں سے ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کی دعائیں نکلیں۔ اللّٰه کا فیصلہ اٹل ہے اور مومنین کو صبر ہی زیب دیتا ہے۔ ہاں، ایک مربی و مفکر سے محرومی کا افسوس ضرور ہے۔ دہلی میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے یہ افسوس ذرا زیادہ گہرا ہے۔
کہنے کو نہ وہ میرے رشتے دار تھے نہ ہی باقاعدہ استاد۔۔۔ لیکن ان سے میں نے جو کچھ سیکھا ہے اس کا صحیح اندازہ نہ انھیں تھا، نہ مجھے ہے۔ بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ہر لفظ انسانی ذہن پر ایک نقش چھوڑتا ہے۔ میں جب ”فکر اسلامی“، ”فکری پختگی“ اور ”مطالعہ“ وغیرہ الفاظ سنتا ہوں تو ذہن کے کینوس پر جو تصاویر بنتی ہیں ان میں رفعت صاحب کا مسکراتا ہوا چہرہ ضرور ہوتا ہے۔
اب رفعت صاحب ٹہلتے ہوئے نہیں ملا کریں گے یوں مجھے سلام میں سبقت نہ کرپانے کا ملال بھی نہ ہوگا۔ طلبائی ایکٹوزم سے لے کر استاد اور پھر ایک مفکر و رہنما کی حیثیت سے عمر بھر کی بھاگ دوڑ کے بعد اب آپ مٹی کی چادر تلے آرام کریں گے۔ البتہ ان کے پرمغز خطابات اور تازہ مقالات سے ہم محروم رہیں گے۔ ان کی سادگی و انکساری، ان کے برمحل اشعار، چست فقرے، ذہانت بھرا مزاح، اصولی موقف، مضبوط استدلال اور نشستوں میں الجھی ہوئی باتوں کو چٹکیوں میں سلجھا دینے کا فن بہت یاد آئے گا۔
اللّٰه تعالیٰ فکر اسلامی کے اس عظیم شارح کی قبر کو نور سے بھردے اور اعلی علیین میں انبیاء، شہداء، صدیقین و صالحین کی معیت نصیب فرمائے! آمین۔